میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کر جہانِ آخِرت کے سفر پر روانہ ہوجانا ہے ۔ اس سفر کے دوران ہمیں قبر و حشر اور پُلْ صِراط کے نازُک مرحلوں سے گزرنا پڑے گا، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا ۔ اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دارِ آخِرت کی آبادی جبکہ گناہ بربادی کا سبب بنتے ہیں۔ جس طرح کچھ نیکیاں ظاہِری ہوتی ہیں جیسے نماز اور کچھ باطِنی مثلاً اِخلاص۔ اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل اور بعض باطِنی جیسے تکبُّر۔ اس پُر فِتَن دور میں اَوَّل تو گناہوں سے بچنے کا ذہن بہت ہی کم ہے اور جو خوش نصیب اسلامی بھائی گناہوں کے عِلاج کی کوشِشیں کرتے بھی ہیں تو ان کی زیادہ تَر توجُّہ ظاہری گناہوں سے بچنے پر ہوتی ہے۔ ایسے میں باطِنی گناہوں کا عِلاج نہیں ہوپاتا حالانکہ یہ ظاہری گناہوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ ایک باطِنی گناہ بـے شمار ظاہری گناہوں کا سبب بن سکتا ہے۔ مثلاً قتل، ظُلم، غیبت، چُغلی، عیب دَری جیسے گناہوں کے پیچھے کینے اور کینے کے پیچھے غصے کا ہاتھ ہونا ممکن ہے ۔ چنانچہ اگر باطِنی گناہوں کا تسلّی بَخْش عِلاج کرلیا جائے تو بہت سے ظاہِری گناہوں سے بچنا اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بـے حد آسان ہوجائے گا۔
حُجَّۃُ الْاِسْلام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی لکھتے ہیں :
ظاہری اَعمال کا باطنی اَوصاف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اَعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر باطن حَسَد، رِیا اور تکبُّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی دُرُست ہوتے ہیں۔
📙 (منھاج العابدین، ص۱۳ ملخصًا)
باطنی گناہوں کا تعلق عموماً دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا دل کی اِصلاح بہت ضروری ہے۔ امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْقَوِی ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :
جس کی حفاظت اور نگہداشت بہت ضروری ہے وہ دل ہـے کیونکہ یہ تمام جسم کی اصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر تیرا دل خراب ہو جائے تو تمام اعضاء خراب ہوجائیں گے اور اگر تو اس کی اصلاح کرلے تو باقی سب اعضاء کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی۔ کیونکہ دل درخت کے تنے کی مانند ہے اور باقی اعضاء شاخوں کی طرح، اور شاخوں کی اصلاح یا خرابی درخت کے تنے پر موقوف ہے۔ تو اگر تیری آنکھ، زبان، پیٹ وغیرہ درست ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تیرا دل درست اور اصلاح یافتہ ہے اور اگر یہ تمام اعضاء گناہوں کی طرف راغب ہوں تو سمجھ لے کہ تیرا دل خراب ہے۔ پھر تجھے یقین کرلینا چاہیے کہ دل کا فساد اور سنگین ہے۔ اس لیے اصلاحِ قلب کی طرف پوری توجہ دے تاکہ تمام اعضاء کی اصلاح ہوجائے اور تو روحانی راحت محسوس کرے۔ پھر قلب کی اِصلاح نہایت مشکل اور دشوار ہے کیونکہ اس کی خرابی خطرات و وَساوِس پر مبنی ہے جن کا پیدا ہونا بندے کے اختیار میں نہیں۔ اس لیے اس کی اصلاح میں پوری ہوشیاری، بیداری اور بہت زیادہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر اصحاب مجاہدہ و ریاضت اِصلاحِ قلب کو زیادہ دُشوار خیال کرتے ہیں اور اَربابِ بصیرت اُس کی اصلاح کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں۔
📙 (منہاج العابدین ، ص۱۶۴)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہر اسلامی بھائی پر ظاہری گناہوں کے ساتھ ساتھ باطِنی گناہوں کے عِلاج پر بھی بھر پور توجُّہ دینا لازم ہے تاکہ ہم اپنے دارِ آخِرت کو ان کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ باطنی گناہوں کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے۔
چنانچہ اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت، مجدد دین و ملت، پروانۂ شمع رسالت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن’’فتاویٰ رضویہ ‘‘جلد۲۳، صفحہ ۶۲۴ پر ارشاد فرماتے ہیں :
*’’مُحَرَّمَاتِ بَاطِنِیَّہ (یعنی باطنی ممنوعات مثلاً) تکبر و ریا و عجب (یعنی غرور) و حسد وغیرہا اور ان کے مُعَالَجَات (یعنی علاج) کہ ان کا علم بھی ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے۔ سید کامران شاہ